After the German occupation
دوسری عالمی جنگ میں چیک ریپبلک پر جرمنی کے قبضے کے بعد ہٹلر نے جرمن آفیسر Reinhard Heydrich کو وہاں انچارج متعین کیا۔ اس وقت چیک ریپبلک کے دو باغیوں نے Reinhard Heydrich کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں وہ بمشکل کامیاب ہوئے۔ جرمن افواج نے باغیوں کی سرکوبی کے لیے جگہ جگہ چھاپے مارے اور ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ ان کارروائیوں میں APS Peshawar سے ملتا جلتا ایک واقع پیش آیا جس کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے۔
ہوا یوں کہ 10 جون 1942 کو جرمن افواج رات کے وقت پراگ کے قریب لیڈائس گاؤں میں داخل ہوئیں۔ چھوٹے سے گاؤں کے تمام راستے جلد ہی بند کر دیے گئے۔ گاؤں میں ایک فارم کے صحن میں تمام 173 مردوں کو اکھٹا کر کے فائرنگ سے ہلاک کر دیا گیا۔ خواتین اور بچوں کو گاؤں کے اسکول لے جایا گیا۔ 3 دن بعد بچوں کو ان کی ماؤں سے جدا کر کے 1 سال سے کم عمر کے بچوں کو چھوڑ دیا گیا۔ باقیوں کو گیس کیمپوں میں بھیج دیا گیا جہاں موت ان کی منتظر تھی۔ پورا گاؤں، چرچ، گھر، یہاں تک کہ قبرستان بھی تباہ کر دیا گیا۔
1969 میں Marie Uchytilova نے اپنا کام "جنگ کے متاثرین بچوں کی یادگار" کا آغاز کیا۔ 1989 میں جب اس کی موت ہوئی تو اس نے اپنے جپسم کے مجسمے مکمل کر لیے تھے، لیکن کانسی کے لیے صرف اتنی رقم جمع ہوئی کہ تین مجسمے بن سکے۔ ان کی اہلیہ نے اس کام کو جاری رکھا۔ بچوں کے 82 کانسی کے مجسمے، 1995-2000 کے درمیان تیار ہو کر لڈائس گاؤں میں رکھے گئے۔ جہاں لوگوں کی بڑی تعداد ان مجسموں کو دیکھنے آتی ہے۔
After the German occupation of the Czech Republic in World War II, Hitler appointed Reinhard Heydrich, a German officer in charge. At that moment, two rebels from the Czech Republic plotted to assassinate Reinhard Heydrich, with little success. German forces raided places to crush the rebels and smashed mountains of oppression. An incident similar to APS Peshawar occurred in these operations, which deserves less condemnation.
On June 10, 1942, German forces entered the village of Lidais, near Prague, at night. All roads to the small village were soon closed. All 173 men were rounded up in a farm yard in the village and shot dead. The women and children were taken to the village school. After 3 days, the children were separated from their mothers and the children under 1 year of age were released. The rest were sent to gas camps where death awaited them. The whole village, the church, the house, even the cemetery was destroyed.
In 1969, Marie Uchytilova launched her work "War Memorial for Children of War Victims". By the time he died in 1989, he had completed his gypsum sculptures, but only enough money was raised for the bronze to make three sculptures. His wife continued this work. 82 bronze sculptures of children, made between 1995-2000, were placed in the village of Ludis. Where a large number of people come to see these statues.
Comments
Post a Comment